غزہ کے ساحل کی طرف بڑھتی ہر لہر ایک سوال اٹھا رہی ہے: جب سارا عالم خاموش تھا تو کون داد رسی کرے گا؟ آج وہی سوال سمندر کی زبان میں جواب مانگ رہا ہے۔ قطرہ قطرہ جمع ہو کر دریا بننے والی صدائیں اب کشتیوں کے پر نشتر ہیں۔ ایک بین الاقوامی بحری قافلہ، مظلوم فلسطینیوں کی طرف زندگی بچانے والی امداد لے کر روانہ ہے اور اس کا مقصد واضح ہے: انسانی زندگی بچانا، انصاف کا پیغام دینا اور محاصرے کو توڑنا۔ یہ کاروان کسی ایک قوم یا مذہب کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا ہے، جس میں مختلف ممالک کے ڈاکٹر، صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور رضاکار شریک ہیں۔ ہر جہاز طبی یونٹس، خوراک، ادویات، خیمے اور تعلیمی وسائل سے لدا ہوا ہے۔ تیونس میں ان کشتیوں کا پْرجوش استقبال اور عالمی میڈیا کی بھرپور توجہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ صرف امداد نہیں بلکہ دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والا قدم ہے۔ اسرائیل نے قافلے کو روکنے کے لیے تمام حربے آزمانے شروع کیے: سمندر میں رکاوٹیں ڈالیں، ڈرونز کی نگرانی بڑھائی، جنگی مشقیں کیں اور کھلے عام حملے کی دھمکیاں دیں۔ یہاں تک کہ بین الاقوامی پانیوں میں ڈرون حملے بھی ہوئے جن سے درجنوں کشتیوں کو نقصان پہنچا اور ان کا مواصلاتی نظام جام ہوا، مگر کارکنان نے کشتیوں کی مرمت کی اور اپنے سفر کو جاری رکھا۔ یہ امن پسند لوگ کسی خوف یا دباؤ کے آگے جھکنے والے نہیں، ان کا اعلان ہے کہ وہ کسی قیمت پر رکیں گے نہیں۔ ان کے نزدیک یہ امدادی مشن روکنا انسانیت پر حملہ ہے، اور دنیا اب اسرائیلی جارحیت کو اسی تناظر میں دیکھ رہی ہے۔
پاکستان نے اس قافلے میں براہِ راست اور بالواسطہ دونوں انداز میں کردار ادا کیا ہے۔ پاکستانی عوام نے احتجاجی ریلیوں اور سوشل میڈیا پر بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا، جبکہ ڈاکٹروں اور صحافیوں پر مشتمل ایک پاکستانی وفد قافلے کا حصہ ہے۔ اگرچہ ڈرون حملوں کے بعد فوری حکومتی ردعمل نہ آنے پر مایوسی کا اظہار ہوا، لیکن پاکستان نے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ اور او آئی سی میں اس قافلے کی سلامتی پر زور دیا اور واضح کیا کہ انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ترکی، قطر، ایران اور دیگر مسلم ممالک نے بھی مختلف سطحوں پر حمایت کا اظہار کیا، جبکہ یورپ اور امریکا میں عوامی دباؤ نے حکومتوں کو کم از کم اظہارِ تشویش پر مجبور کیا۔ یہ قافلہ ایک ایسے وقت میں روانہ ہوا ہے جب فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ اب تک اقوام متحدہ کے بیش تر رکن ممالک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں اور برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال جیسے ممالک نے بھی حالیہ برسوں میں اس سمت قدم بڑھایا ہے۔ یورپ کے کئی ممالک میں پارلیمان کے منتخب ارکان کھل کر اس قافلے کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ تبدیلیاں اسرائیل کے لیے سخت سفارتی ناکامی ہیں اور عالمی رائے عامہ کے رخ کو ظاہر کرتی ہیں۔ معاشی طور پر بھی یہ تحریک اسرائیل پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ مسلسل جنگ اور محاصرے کے باعث اسرائیلی معیشت پہلے ہی بحران کا شکار ہے، اب بحری انشورنس کے اخراجات میں اضافے، برآمدات میں کمی اور سرمایہ کاروں کی بداعتمادی نے اس دباؤ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ، اسٹاک مارکیٹس میں اتار چڑھاؤ اور تجارتی تاخیر نے عالمی سطح پر بھی اثر ڈالا ہے۔ بائیکاٹ مہمات نے اسرائیل سے جڑے برانڈز اور کمپنیوں کو اربوں کا نقصان پہنچایا ہے۔ میکڈونلڈز اور اسٹاربکس جیسی عالمی کمپنیوں کی فروخت میں کمی اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی طاقت اب حقیقی معیشت کو ہلا رہی ہے۔
سوشل میڈیا اس پورے منظرنامے کا سب سے بڑا محاذ بن چکا ہے۔ ہر پوسٹ، ہر ہیش ٹیگ اور ہر ویڈیو ایک ہتھیار کی طرح ہے جو اسرائیلی پروپیگنڈے کو بے نقاب کر رہا ہے۔ لندن، پیرس، نیویارک، برلن اور کراچی کی سڑکوں پر نکلنے والے لاکھوں افراد اور آن لائن یکجہتی کی گونج نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ یہ تحریک صرف مسلم دنیا تک محدود نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی آواز ہے۔ یہ قافلہ انسانیت کا قافلہ ہے، امید کا طوفان ہے، انصاف کا پرچم ہے۔ قطرہ قطرہ جمع ہونے والی آواز آج سمندر کی موجوں کے ساتھ دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب یہ کشتیوں کا کاروان غزہ کے ساحل پر لنگر انداز ہوگا اور محصور بچوں کے لبوں پر پہلی بار امید کی مسکراہٹ جھلکے گی، زخمی مائوں کے دل سکون پائیں گے اور یتیموں کی آنکھوں میں روشنی لوٹ آئے گی۔ اس لمحے دنیا کو یاد دلایا جائے گا کہ طاقت کے ایوان مٹ جاتے ہیں مگر انسانیت زندہ رہتی ہے۔ ہمارا نعرہ ہے: ’’ہم سب ایک آواز — مظلوم کی حمایت!‘‘ یہ صرف ایک جملہ نہیں، یہ ہماری عہد کی مہر ہے۔ آج کا قافلہ آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ظلم کے اندھیروں کو توڑنے کے لیے بس ایک آواز کافی ہے، اور جب یہ آواز لاکھوں دلوں سے ملتی ہے تو طوفان بن جاتی ہے۔ اب یہ آواز رکے گی نہیں، یہ قافلہ تھمے گا نہیں، یہ پرچم جھکے گا نہیں۔ یہ امید کا سفینہ ہر طوفان سے ٹکرا کر بھی منزل تک پہنچے گا اور تاریخ کے صفحات پر یہ کاروان ہمیشہ کے لیے روشن مثال کے طور پر ثبت ہو جائے گا۔

