اگر سیاست کی بھی آسکر ایوارڈز کی کوئی تقریب ہوتی تو سب سے پرتعیش، منافقانہ خلوص سے بھرپور، اور سفارتی خودغرضی سے لبریز دورے کے لیے ڈونلڈ جے ٹرمپ کا 2025 کا دورۂ مشرقِ وسطیٰ بغیر کسی مقابلے کے جیت جاتا۔ آپ تقریباً سْن سکتے تھے کہ لال قالین شیشے کے جھاڑ فانوسوں، سونے کے تختوں اور تلواروں کے ناچ کے بوجھ سے کراہ رہا ہے۔ ایک ایسا خطہ جو آمریت، فرقہ واریت اور بداعتمادی کا شکار ہے، وہاں کے لیڈر ایک دم متحد ہوگئے — مگر اتحاد قالینوں پر اْس شخص کو خوش آمدید کہنے کے لیے جس نے ابھی چند ماہ قبل مسلمانوں پر امریکا کے دروازے بند کیے تھے۔ ستم ظریفی؟ بلکہ شاندار ستم ظریفی۔ خیرمقدمی تقریب اتنی ہی شاندار تھی جتنی کسی ہالی وڈ فلم کی پریمیئر نائٹ، مگر مواد کم، جلوے زیادہ۔ سعودی عرب نے صرف لال قالین ہی نہیں بچھایا، بلکہ پورے محل کی نئی ٹائلنگ کروائی ہو جیسے۔ شاہی دعوتیں، جگمگاتے گلوبز، اور وفاداری کی شیکسپیری اداکاری ہر منظر میں دکھائی دی۔ لیکن ظاہر ہے، ہر مشکبار مصافحے کے پیچھے ایک کانٹا تھا، اور ہر چمکتی ہنسی کے پیچھے صدیوں کی سازشیں چھپی تھیں۔ یہ سفارت کاری نہیں لین دین کا تماشا تھا۔ ایک ایسی “golden diplomacy” جہاں اصولوں کی قیمت صرف ہتھیاروں، معاہدوں اور تصویروں میں تولی جاتی ہے۔

سعودی عرب کی ٹرمپ کے لیے خیرمقدمی تقریب صرف گرمجوش نہیں بلکہ دہکتی ہوئی آگ تھی۔ سعودیوں نے 110 ارب ڈالر کے اسلحے کے سودے پر دستخط کیے جس نے امریکی دفاعی ٹھیکیداروں کو جشن منانے کو موقع دیا۔ جب خطے کا نوجوان روزگار اور اصلاحات کے لیے ترس رہا تھا، تب اربوں ڈالر ٹینکوں، ڈرونز، اور میزائلوں پر لگا دیے گئے۔ اس ’’امن میں سرمایہ کاری‘‘ نے اصل میں عدم استحکام کے لیے ایندھن فراہم کیا۔ ان سب خوشبوؤں سے لبریز مسکراہٹوں کے پیچھے اصل کھیل اسرائیل سے تعلقات کی بحالی تھا۔ وہ بیج جو بعد میں ابراہیم معاہدوں کی شکل میں پھوٹے، اسی دورے میں بوئے گئے۔ سعودی لیڈر اشارہ دے رہے تھے: ’’ہم آپ سے ہتھیار خریدیں گے، آپ کی مدد کریں گے، اور خطے میں آپ کو مکمل راستہ دیں گے۔ بس یہ نہ پوچھیں کہ ہمیں بدلے میں کیا چاہیے‘‘۔

یو اے ای اور بحرین نے اس معاملے میں زیادہ خاموشی اختیار کی، مگر کردار اتنا ہی اہم تھا۔ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کی راہ پر ان کی چپ چاپ تیاری ہو رہی تھی۔ انہوں نے بھی اقتصادی فوائد اور سیکورٹی کی ضمانتوں پر داؤ لگایا، اس امید پر کہ ٹرمپ کی خوشنودی انہیں خصوصی رعایتیں دلائے گی۔ ان کی حکمت عملی زیادہ پْرشور نہیں تھی، بلکہ حسابی تھی۔ انسداد دہشت گردی، سائبر سیکورٹی اور ایران پر اعلیٰ سطح کی گفتگو ہوئی۔ لیکن پردے کے پیچھے ایک شطرنج کی بازی جاری تھی جہاں عوام کی نظریں فلسطینی کاز پر تھیں، وہاں لیڈران مغرب کی نظر میں اعتدال پسند نظر آنے کی مشق کر رہے تھے۔

اگرچہ ٹرمپ کی پہلی منزل ریاض تھی، مگر اس دورے کا اصل مرکز اسرائیل ہی تھا۔ اسرائیل نے سفارتی، عسکری اور نفسیاتی طور پر سب سے زیادہ فائدہ اْٹھایا۔ ٹرمپ کی ایران مخالف اور فلسطینیوں کے بارے میں بے پروا باتیں، نیتن یاہو کے لیے کسی تحفے سے کم نہ تھیں۔ یہاں ایک خاموش مگر گہرا سوال ابھرتا ہے کیا عرب قیادت ایران کے خوف میں اتنی گرفتار ہو چکی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مظلوم فلسطینیوں کی قیمت پر ترجیح دینے لگی ہے؟

اردن اور مصر نے کم چمک دمک اور زیادہ حقیقت پسندی سے گفتگو کی۔ دونوں ممالک امریکی امداد پر انحصار کرتے ہیں، اس لیے ٹرمپ کی پالیسیوں پر رسمی حمایت پیش کی اور بدلے میں مالی اور عسکری امداد کی ضمانتیں حاصل کیں۔ اردن، جس کے اردگرد بدامنی ہے، نے استحکام کی خواہش ظاہر کی؛ مصر نے داخلی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد مانگی۔ یہ دونوں ممالک پرانے طرز کی مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کی نمائندگی کرتے ہیں: ’’زندہ رہو، ساتھ دو، اور امداد کی فہرست میں شامل رہو‘‘ کی عملی تصویر۔

دورے کے سب سے غیر سنجیدہ لمحات میں سے ایک وہ تھا جب ٹرمپ نے شام میں ’’سیزفائر‘‘ کا اعلان کیا!! ایسا اعلان جو حقیقت سے زیادہ اشتہاری لگتا تھا۔ اعلان ہوتے ہی سعودی عرب نے چند الزامات واپس لیے اور منتخب گروہوں کو دوبارہ امداد دینا شروع کر دی۔ یہ سیزفائر ایک تماشا تھا دکھاوا امن کا، مقصد اثر رسوخ کا۔ یہ سفارتی منافقت کا کمال تھا: امن کا دعویٰ کرو، گروہوں کو فنڈ دو، اور ذمے داری سے بچو۔ سعودی پالیسی اسی اسٹرٹیجی پر مبنی تھی۔ ظاہر میں استحکام، باطن میں طاقت کا کھیل۔

میڈیا کی زیادہ توجہ ’’سرمایہ کاری‘‘ پر تھی۔ مگر اصل سوال یہ ہے کس چیز میں؟ ٹرمپ نے اقتصادی شراکت، مشترکہ منصوبے اور ٹیکنالوجی کے تعاون کی بات کی۔ مشرقِ وسطیٰ کے لیڈران خوش ہوئے، مگر ان کی آنکھوں میں ڈالر چمک رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ’’معاہدے‘‘ یا تو مفاہمتی یادداشتیں تھیں، یا مشروط وعدے اور انسانی ترقی، تعلیم، یا اختراعات میں حقیقی سرمایہ کاری ناپید تھی۔ ٹیکنالوجی کے وعدے خاص طور پر کھوکھلے نکلے۔ سیلیکون ویلی کی مسکراہٹوں کے پیچھے اصل برآمدی سامان تھا: نگرانی کے آلات… عوام کو آزاد کرنے کے نہیں، بلکہ قابو رکھنے کے۔

اس دورے کا سب سے افسوسناک پہلو امت ِ مسلمہ پر اس کا اثر تھا۔ وہی ٹرمپ، جس نے مسلمانوں کا مذاق اْڑایا، ان پر پابندی لگائی اور ظالم حکومتوں کی پشت پناہی کی، اب ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے یہ ایک کھلی بے وفائی تھی۔ اْس شخص کے سامنے جھکتے ہوئے مسلم حکمرانوں کی تصاویر دیکھ کر عوام کے دل ٹوٹ گئے۔ حکمرانوں نے اس دورے کو دفاع، معاہدوں اور تعلقات کے لیے استعمال کیا مگر اسلامی یکجہتی، فلسطین، اور عوامی جذبات کو نظرانداز کر دیا۔ جب امت کو اتحاد کی امید تھی، تب اْن کے لیڈران نے مفادات اور سیلفی کو ترجیح دی۔ نتیجتاً ایک سودا جس کی قیمت ساکھ تھی۔ ٹرمپ کا مشرقِ وسطیٰ کا دورہ صرف ایک سفر نہیں، بلکہ ایک سودا تھا۔ لیڈران نے وقار کو معاہدوں کے بدلے، اصولوں کو سیلفی کے بدلے، اور وژن کو دکھاوے کے بدلے فروخت کر دیا۔ وقتی فائدے، سرمایہ کاری، ہتھیاروں کے سودے، اور وائٹ ہاؤس کی توجہ ایک لمبے وقت کی ساکھ کے نقصان کا سودا تھے۔

اسرائیل سے تعلقات تو قائم ہو گئے، مگر قیمت کیا تھی؟ عوامی اعتماد کا زوال، فلسطینیوں کی آواز کا گم ہو جانا، اور انصاف کی جگہ مفاد پرستی کا راج۔ جب سونے کے قالین لپیٹے گئے اور ٹرمپ واپس امریکا گیا، ہاتھ میں معاہدے لے کر، تب خطہ صرف اتنا سوچ رہا تھا: ہم میزبان تھے — یا ہم بِک گئے؟

سیدنا ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’قریب ہے کہ قومیں تم پر ایک دوسرے کو ایسے بلائیں جیسے کھانے والے اپنے برتن پر ایک دوسرے کو بلاتے ہیں‘‘۔ صحابہ نے عرض کیا: ’’کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟‘‘

آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ تم اس وقت کثرت میں ہوگے، لیکن تم جھاگ کی مانند ہوگے، جیسے سیلاب کے جھاگ۔ اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ’وہن‘ ڈال دے گا‘‘۔

پوچھا گیا: ’’یا رسول اللہ! وہن کیا ہے؟‘‘
فرمایا: ’’دنیا کی محبت اور موت سے کراہت!‘‘۔