طنزیہ اور پیش گوئی کرتی پاپ کلچر کی دنیا میں دی سمپسنز ایک ایسا ثقافتی مظہر ہے جس نے بارہا اپنی کہانیوں سے مستقبل کی جھلک دکھا کر ناظرین کو حیران کیا ہے۔ امریکی انتخابات سے لے کر ٹیکنالوجی میں انقلابات تک، یہ کارٹون سیریز کئی بار واقعات کی پیشگی عکاسی کرتی نظر آئی۔ لیکن جب جنوبی ایشیا پہل گام کے المناک دہشت گرد حملے کے بعد غم کی نئی لہر سے گزر رہا ہے۔ جس میں 26 سیاح جاں بحق ہوئے، ایک پرانا سمپسنز کا مکالمہ دوبارہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا ہے۔ یہ مکالمہ بارٹ ٹو دی فیوچر (سیزن 11، 2000) نامی قسط میں آتا ہے، جہاں کرسٹی دی کلاؤن کہتا ہے: ’’پاکستان اور پین کیک میں کیا فرق ہے؟ میں نے آج تک کوئی پین کیک نہیں دیکھا جسے بھارت نے ایٹم بم سے اڑا دیا ہو!‘‘ پہلی نظر میں یہ ایک عام طنزیہ جملہ لگتا ہے۔ غیر روایتی، مبالغہ آمیز اور سیاہ مزاح پر مبنی۔ لیکن اس جملے کا ایسے وقت میں دوبارہ منظر عام پر آنا، جب ایک حقیقی سانحہ پیش آیا ہو، بہت سے گہرے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا پاپ کلچر عالمی بیانیے کو تشکیل دینے کے لیے استعمال ہو رہا ہے؟ اور اگر ہاں، تو یہ کس کے حق میں ہے؟


یہ محض ایک لطیفہ نہیں؛ بلکہ سافٹ پروپیگنڈے کی ایک شکل ہے۔ میڈیا خصوصاً مغربی میڈیا نے ہمیشہ یہ طاقت رکھی ہے کہ وہ رویے اور خیالات کو تشکیل دے، اکثر اوقات مکمل قوموں کو یک طرفہ انداز میں پیش کر کے۔ اس معاملے میں، اگرچہ یہ جملہ پچیس سال پہلے لکھا گیا تھا، مگر یہ پاکستان کو ایک ’’ایٹمی شرارتی ریاست‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے جو ہر وقت جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ حقیقت مگر اس سے بہت مختلف ہے۔ پاکستان، اپنی جغرافیائی مشکلات اور اندرونی چیلنجز کے باوجود، ہمیشہ خطے میں امن کا داعی رہا ہے۔ اس کی قیادت نے بارہا مشروط مکالمے کی پیشکش کی ہے۔ بنیادی شرط صرف باہمی احترام اور کشمیر جیسے دیرینہ تنازعات کا حل ہے۔ مگر سمپسنز کی ایک پرانی قسط کا کلپ، سوشل میڈیا پر اس انداز میں پھیلایا جا رہا ہے کہ گویا پاکستان ہر برائی کی جڑ ہو۔ یہ معاملہ اس وقت اور بھی حساس بن جاتا ہے جب بھارتی میڈیا پہل گام کے المناک واقعے کو فوراً سیاسی رنگ دیتے ہوئے بغیر شواہد پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے۔ ایسے جذباتی ماحول میں، ایک کارٹون کا طنزیہ جملہ بھی بداعتمادی اور تعصب کا ذریعہ بن سکتا ہے۔


سوال یہ ہے: ایک مغربی کارٹون جنوبی ایشیائی بحرانوں کے دوران کیوں نمایاں ہو جاتا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ علامتی کہانیاں جذبات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ کارٹون سفارت کاری کے پابند نہیں ہوتے؛ وہ لاشعور سے بات کرتے ہیں اور مزاح کے پردے میں تعصبات کی تصدیق کر دیتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں باخبر میڈیا فہم اور تنقیدی نظر کی ضرورت ہے۔ پاکستانی نوجوان، دانشور اور تخلیق کار اس قسم کے مواد سے محض شکایت نہ کریں، بلکہ جواب میں بصیرت انگیز بیانیہ پیش کریں۔ ہم نے اپنا بیانیہ خود بنانا ہے۔ نہ صرف بطور مظلوم، بلکہ بطور امن پسند، باشعور قوم۔ اگر طنز دنیا کا آئینہ ہے، تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس میں اپنا چہرہ خود دکھائیں، سچائی کے ساتھ، وقار کے ساتھ۔
دی سمپسنز ایک امریکی کارٹون ہو سکتا ہے، مگر اس کے بیانیے کا اثر عالمی ہے اور جنوبی ایشیا جیسے حساس خطے میں، یہ اثر حقیقی بنتا ہے۔ پاکستان، جو آج دہشت گردی، میڈیا وار اور سیاسی دباؤ سے نبرد آزما ہے، اْسے اپنے وقار کی جنگ بھی لڑنی ہے۔ اور آج کی دنیا میں، جہاں لطیفے سچ سے زیادہ اثر رکھتے ہیں، یہ جنگ شاید ایک کارٹون سے ہی شروع ہو۔