وہ تھکن کے ساتھ جاگتے ہیں، ٹوٹتی معیشتوں، موسمیاتی بحران، جنگوں، اور ایسی ’’کامیابیوں‘‘ کو دیکھتے ہیں جو ان کی زندگیوں سے میل نہیں کھاتیں۔ وہ چائے پیتے ہیں، کلاسز یا ایسے کام پر جاتے ہیں جو بمشکل اخراجات پورے کرتے ہیں، اور بے چین خیالات اور خاموش آنسوؤں کے ساتھ سوجاتے ہیں۔ یہ سُستی نہیں ہے، یہ ذہنی تھکن ہے۔ اور پاکستان کے نوجوان— جو آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہیں— خاموشی سے ٹوٹ رہے ہیں۔ ایسے ملک میں جہاں اوسط عمر صرف 22 سال ہے، قومی بیانیہ شاذ و نادر ہی نوجوانوں کی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ کبھی انہیں مستقبل کا روشن چراغ قرار دیا جاتا ہے، کبھی بگڑے ہوئے اور نالائق قرار دے دیا جاتا ہے۔ مگر کوئی یہ نہیں پوچھتا: ایسے ملک میں جوان ہونے کا مطلب کیا ہے جہاں مہنگائی خوابوں کو نگل رہی ہو، ملازمتوں کی مارکیٹ سکڑ رہی ہو، اور سیاسی قیادت مسلسل بے پروا ہو؟

عالمی سطح پر برن آؤٹ ایک ایسی کیفیت بن چکی ہے جس میں ایک نسل مسلسل بحرانوں سے نڈھال ہے۔ پاکستان میں یہ کیفیت اپنا مخصوص رنگ رکھتی ہے۔ یہ صرف دفتری تھکن یا کارپوریٹ دباؤ کی بات نہیں، یہاں یہ جذباتی بقا کی جدوجہد ہے۔ لاہور کا ایک نوجوان جو دو جز وقتی نوکریوں کے ساتھ گھر چلا رہا ہے۔ کراچی کی ایک طالبہ جو تعلیم کے ساتھ ساتھ روزانہ ہراسانی کا سامنا کرتی ہے۔ فیصل آباد کا ایک فری لانسر جو کم تنخواہ میں مستقل آن لائن رہ کر جیتا ہے۔ یہ اعداد وشمار نہیں، جیتی جاگتی زندگیوں کی کہانیاں ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے 2019 میں برن آؤٹ کو ایک پیشہ ورانہ مظہر کے طور پر تسلیم کیا۔ مگر پاکستان میں، جہاں ذہنی صحت اب بھی ایک ممنوع موضوع ہے، وہاں یہ گفتگو کبھی شروع ہی نہیں ہوتی۔ والدین اسے ڈراما کہتے ہیں، ادارے اسے کمزوری سمجھتے ہیں، اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک نسل خاموشی سے بکھر رہی ہے۔ صورتحال کو اور سنگین بناتی ہے وہ خلیج جو نوجوانوں سے وابستہ توقعات اور ان کو ملنے والے وسائل کے درمیان ہے۔ ایک عام نوجوان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ مذہبی بھی ہو اور جدید بھی، تابع بھی ہو اور خودمختار بھی، کامیاب بھی ہو اور شکر گزار بھی۔ وہ نہ صرف اپنے خاندان کے خوابوں کا بوجھ اٹھاتا ہے بلکہ معاشرتی اقدار اور اپنی پہچان کی بقا کے لیے بھی جدوجہد کرتا ہے۔

تعلیم ہی کو لے لیں۔ ہر سال ہزاروں نوجوان ایسی ڈگریاں لے کر نکلتے ہیں جو نہ روزگار دیتی ہیں، نہ کوئی عملی راستہ۔ یونیورسٹیاں تھیوری سکھاتی ہیں، مہارت نہیں۔ نہ کوئی کیریئر کونسلنگ ہے، نہ ذہنی صحت کی مدد۔ اوپر سے سوشل میڈیا کا زہر، جہاں ہر دوسرا شخص کامیاب نظر آتا ہے، اصل دباؤ کو اور بڑھاتا ہے۔ پھر بھی یہ برن آؤٹ نظر نہیں آتا، کیونکہ ہماری نوجوان نسل نے تکلیف کو بھی جمالیاتی انداز میں پیش کرنا سیکھ لیا ہے۔ میمز، اندھیرے لطیفے، اور خود کو ہدف بناتے ریلز۔ ڈپریشن ایک ٹرینڈ بن گیا ہے، بے چینی ہیش ٹیگ ہو چکی ہے، اور اصل پکار دلوں میں دب چکی ہے۔ دنیا ان کی ’’برداشت‘‘ پر داد دیتی ہے، یہ سمجھے بغیر کہ ان کے پاس اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ یہ صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں بلکہ معاشی اور سیاسی بحران ہے۔ ایک بکھری ہوئی نسل ترقی، ایجاد یا تبدیلی کی راہ نہیں دکھا سکتی۔ اگر ہمارے نوجوان ہی مایوس، بے حس، اور تھکے ہوئے ہوں گے، تو کسی بھی نئے پاکستان کا خواب خواب ہی رہے گا۔

اب کیا کیا جائے؟
پہلا قدم یہ کہ اس گفتگو کو عام کیا جائے۔ میڈیا، خاص طور پر، اس پر سچ اور تحقیق پر مبنی تحریریں شائع کریں۔ دوسرا، تعلیمی اداروں میں ذہنی صحت کی تعلیم، ماہر کونسلرز کی دستیابی اور عملی مہارت کی تربیت کو لازمی بنایا جائے۔ جذباتی ذہانت کو بھی تعلیمی کامیابی جتنا اہم سمجھا جائے۔ تیسرا، حکومت کو ایسی پالیسیاں بنانی ہوں گی جو نوجوان ملازمین کا تحفظ کریں، منصفانہ اجرت یقینی بنائیں، اور صحت مند کام کے ماحول کو فروغ دیں۔ خاص طور پر فری لانسرز کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ آخر میں، خاندانی نظام کو بدلنا ہوگا۔ والدین اور معاشرتی رویوں میں موجود جذباتی جبر ختم کرنا ہوگا۔ سننے کی عادت ڈالنی ہوگی، لیبل لگانے کی نہیں۔ مدد دینی ہوگی، شرمندہ کرنے کی نہیں۔

پاکستان ایک موڑ پر کھڑا ہے۔ یا تو ہم نوجوانوں کو رومانوی نعروں میں گم رکھتے رہیں، یا پھر ان پر حقیقتاً سرمایہ کاری کریں۔ نہ صرف روزگار اور قرضوں کی صورت میں، بلکہ فہم، ہمدردی، اور عزت کی صورت میں۔ کیونکہ جب ایک نسل خاموشی سے چیخ رہی ہو، تو سب سے بلند عمل سننا ہوتا ہے۔ اور ہو سکتا ہے، ہم یہ جان پائیں کہ مستقبل کو بچانے کے لیے پہلے حال کو ٹھیک کرنا ضروری ہے۔