پہل گام، کشمیر کی ایک خاموش وادی، آج صرف برف، دریا اور پہاڑوں کی سرزمین نہیں رہی، بلکہ ایک بین الاقوامی سیاسی سازش کا حصہ بن چکی ہے۔ حالیہ واقعہ جس میں مبینہ دہشت گردی کا شور مچایا گیا، بظاہر ایک سادہ سانحہ لگتا ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک بڑی حکمت ِ عملی کا ٹکڑا ہے، جس کا مقصد امت ِ مسلمہ کی توجہ غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم سے ہٹانا ہے۔
جیسے ہی غزہ میں بچوں، عورتوں اور نہتے عوام پر اسرائیلی ظلم اپنی انتہاؤں کو چھونے لگا، دنیا بھر کے مسلمان، خاص طور پر پاکستانی اس کے خلاف یکجہتی کا علم بلند کیے ہوئے تھے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر ’’بائیکاٹ اسرائیل‘‘ اور ’’فری فلسطین‘‘ جیسے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہے تھے، ہزاروں لوگوں نے امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع کر دیا تھا۔ تعلیمی اداروں، صحافیوں، حتیٰ کہ کاروباری شخصیات نے بھی فلسطینی عوام کی حمایت میں کھل کر آواز بلند کی۔ لیکن جیسے ہی پہل گام میں ایک واقعہ رونما ہوتا ہے، بھارتی میڈیا، حکومت اور بین الاقوامی مغربی حلقے ایک مشترکہ بیانیہ بنانے لگتے ہیں کہ ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ ایک بار پھر ابھر رہی ہے۔ اس سے امت ِ مسلمہ کی توجہ فوراً غزہ سے ہٹ کر کشمیر کی طرف چلی جاتی ہے، لیکن اندازِ نظر بدل جاتا ہے۔ کشمیری مسلمانوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اور عالمی میڈیا اس بیانیے کو آنکھیں بند کر کے قبول کر لیتا ہے۔
بھارتی انٹیلی جنس کی نااہلی یہاں عیاں ہوتی ہے: یا تو یہ واقعہ ان کی ناکامی ہے کہ وہ اسے روک نہیں سکے، یا پھر یہ سب ایک رچی گئی اسکیم ہے تاکہ بھارت دنیا کے سامنے مظلوم بن کر خود کو پیش کر سکے اور پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کیا جا سکے۔ لیکن اصل نقصان ان لاکھوں کشمیریوں کا ہوتا ہے جن پر پہل گام کے بعد سیکورٹی کے نام پر مظالم بڑھا دیے جاتے ہیں۔
اس واقعہ نے ایک اور خطرناک پہلو کو جنم دیا: دو ایٹمی طاقتیں، پاکستان اور بھارت، ایک بار پھر غیر مرئی تناؤ میں آ گئیں۔ کنٹرول لائن پر نقل و حرکت میں اضافہ، سفارتی سطح پر سخت بیانات اور عالمی میڈیا کی بے چینی ایک نیا بحران جنم دیتی ہے۔ اس کشیدگی کا اثر معیشت پر بھی پڑتا ہے۔ اسٹاک مارکیٹیں عدم استحکام کا شکار ہوئیں، پاکستانی کرنسی پر دباؤ بڑھا، اور بھارتی کاروباری ماحول میں بھی اضطراب پیدا ہوا۔
اسلاموفوبیا کو اس پورے بیانیے میں انتہائی چالاکی سے شامل کیا گیا۔ عالمی میڈیا میں مسلمانوں کو شدت پسند اور خطرناک کے طور پر دکھایا گیا، تاکہ مغرب میں جاری اسرائیل مخالف جذبات کو کمزور کیا جا سکے۔ غزہ کی آواز، جو پہلے عالمی میڈیا پر چھائی ہوئی تھی، اب پہل گام کی دھند میں گم ہونے لگی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس سب کو کیسے روکا جائے؟ اس کا حل صرف ایک ہے: اتحاد۔ اگر مسلم دنیا متحد ہو جائے اور کشمیر و فلسطین دونوں کے لیے ایک بیانیہ تیار کرے، تو بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ حکمتِ عملی ناکام ہو سکتی ہے۔ ہمیں ایک ایسا محاذ بنانا ہو گا جو بائیکاٹ کو جاری رکھے، سیاسی سفارت کاری کو مضبوط کرے، اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑے۔
میڈیا میں، تعلیمی اداروں میں، خطبات میں، اور عالمی فورموں پر ہمیں واضح کرنا ہو گا کہ چاہے پہل گام ہو یا غزہ، ظلم ایک جیسا ہے، اور مظلوم صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ انسانیت ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم صرف احتجاج نہ کریں بلکہ حکمت ِ عملی کے ساتھ آگے بڑھیں۔
پہل گام کا واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دشمن کتنی مہارت سے توجہ ہٹاتا ہے، لیکن ہمیں اپنے مقصد، اپنے بھائیوں اور اپنی انسانیت کے لیے بیدار رہنا ہوگا۔ یہی وقت ہے کہ ہم پہل گام اور غزہ کو ایک ساتھ جوڑ کر دنیا کو دکھائیں کہ امت ِ مسلمہ بیدار ہے، اور اب وہ صرف ردعمل نہیں بلکہ عمل میں یقین رکھتی ہے۔

